جن گھرانوں میں یتیم بچے ہیں وہ گھربڑے ہی قابل احترام ہوتے ہیں، ان پر رزق اور خیر و برکت کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں
** * * * *عبد المالک مجاہد۔ ریاض* * * * *
لفظ ’’یتیم‘‘ کتنا عجیب وغریب ہے۔ اس لفظ کو سنتے ہی دل میں احساس محبت جنم لیتا ہے۔ یتیم بچے یا بچی کے لیے ہمارے دل میں محبت اور پیار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اللہ کرے کوئی یتیم نہ ہو۔ اس کا باپ اور ماں سلامت رہیں ۔ یتیم کون ہے؟ یتیم ہر ایسے بچے کو کہتے ہیں جس کا والد اس کے بالغ ہونے سے پہلے وفات پا جائے۔ اسی طرح جس بچے اور بچی کے والد او ر والدہ دونوں اس کے بالغ ہونے سے پہلے وفات پا جائیں انہیں بھی یتیم الابوین کہا جاتا ہے۔ یقینا یہ محبتوں کے زیادہ مستحق ہیں۔ اسی طرح اگر کسی کی والدہ بچپن میں وفات پا جائے تو اسے بھی یتیم کہا جائے گا کہ اس کی والدہ وفات پا چکی ہیں۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جس نے معاشرے کے پسے ہوئے‘ محروم لوگوں کو ہمیشہ اوپر اٹھایا ہے۔ ان کے مورال کو بلند کیا ہے۔ ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ اولاد سے محبت فطری چیز ہے۔
ہر شخص اپنی اولاد سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ وہ چھوٹے بچے کو چومتا ہے، گلے سے لگاتا ہے۔ اس کی پرورش کرنے اور اس کو زندگی کی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے صبح و شام محنت کرتا ہے۔ گھر آتا ہے تو سیدھا بچوں کے پاس جاتا ہے۔ وہ بھی بھاگتے ہوئے آتے ہیں، اپنے بابا کی ٹانگوں کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں۔ باپ بے اختیار بوسے دینے لگ جاتا ہے۔ بچے توتلی زبان میں والد کو باتیں سناتے ہیں۔ کبھی شکایت لگاتے ہیں۔ والد بچوں کی باتیں سن کر بے اختیار مسکراتا ہے۔ خوش ہوتا ہے۔ اسی کا نام زندگی ہے۔ قارئین کرام! عموماً جب کبھی دوست اکٹھے ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کو یہ بتانے کے لیے کہ میں بڑا اہم شخص ہوں کہتے ہیں: ہمارے فلاں بڑی شخصیت سے بڑے قریبی تعلقات ہیں۔ وہ تو ہماری شادی پر بھی آیا تھا۔ ہمارے ہاں وفات ہوئی تو تعزیت کے لیے آیا تھا۔ ہمارے شہر کا بڑا لیڈر ہو یا وہ وزیر بن جائے تو ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہاں یار فلاں تو ہمارے شہر کا رہنے والا ہے۔ یار وہ تو اپنا ہی آدمی ہے۔ اپنے علاقے کا ہے۔
قارئین کرام ،میری اس بات کی تصدیق کریں گے کہ ہم اپنی مجالس میں ا س قسم کی باتوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اور اگر خوش قسمتی سے کوئی بڑا لیڈر یا وزیر ہمارا محلے دار یا ہمسایہ ہو تو ہم بڑے فخر سے لوگوں کو بتاتے پھرتے ہیں کہ ہم فلاں وزیر یا فلاں آفیسر یا سیاست دان کے پڑوس میں رہتے ہیں۔ یہ فطرت کے تقاضے ہیں‘س ہر شخص اپنی اہمیت جتانا چاہتا ہے۔ قارئین کرام !ذرا تصور کریں کہ اگر آپ کے پڑوس میں اللہ کے رسولکا گھر ہو تو آپ کیسا محسوس کریں گے؟ اچھا! اس سے بڑھ کر غور کریں کہ اگر یہ ہمسائیگی جنت میں،اللہ کے رسول کے ساتھ ہو تو پھر آپ کو کیسا لگے گا؟! کیا آپ نہیں چاہیں گے کہ آپ اللہ کے رسولکے ہمسایہ میں رہتے ہوں۔ مجھ سمیت اگر ہم اپنے گناہوں کی طرف دیکھیں تو حیا آتی ہے۔ کہاں اللہ کے رسولکی شان، آپ کی منزلت، آپ کا مقام ومرتبہ، آپ کائنات کی سب سے اعلیٰ و ارفع شخصیت ہیں۔ اگر کسی کو آپ کا قرب یا ہمسائیگی مل جائے تو کیا آپ اپنی خوش قسمتی پر ناز نہیں کریں گے۔ بلاشبہ وہ شخص بڑا ہی خوش نصیب ہے جسے اللہ کے رسولکی ہمسائیگی نصیب ہو جائے۔ اللہ کے رسول کی ہمسائیگی کیسے‘ کسے اور کب نصیب ہو گی؟آئیے پہلے اللہ کے رسولکی ایک حدیث پڑھتے ہیں۔یہ حدیث صحیح بخاری کی ہے اور اس کے راوی سہل بن سعد ؓہیں ۔ اللہ کے رسولنے ارشاد فرمایا: أَنَا وَکَافِلُ الْیَتِیمِ فِي الْجَنَّۃِ ھٰکَذَا۔ ’’ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے ،آپ نے اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ کیا۔‘‘ محدثین نے اس حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جو شخص بھی اس حدیث کو سنے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس پر عمل کرے تاکہ جنت میں اللہ کے رسول کا ساتھی اور ہمسایہ بن جائے۔
صحیح بخاری کے شارح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بڑی زبردست بات لکھی ہے۔ ذرا الفاظ پر غور کیجیے: اس میں اشارہ ہے کہ نبی کریم کے درجہ اور یتیم کی کفالت کرنے والے کے درجہ میں ایک انگلی کے برابر فاصلہ ہوگا۔ اللہ کے رسول کی ایک بہت پیاری حدیث ہے: مسلمان معاشرے میں سب سے بہترین گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ حسن سلوک کیا جاتا ہو اور مسلمانوں میں بدترین گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور ا س کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو۔(الجامع الصغیر)۔ اس سے زیادہ خوش قسمتی یا خیر کی کیا بات ہو سکتی ہے کہ آپ کے گھر میں ایک یا ایک سے زیادہ یتیم ہوں اور آپ ان کی کفالت کر رہے ہوں۔ اللہ کے رسولکی ولادت با سعادت سے دو ماہ پہلے ہی آپ کے والد ماجد سردار عبداللہ بن عبدالمطلب اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ آپ کی پرورش والدہ کے علاوہ دادا سردار عبدالمطلب نے کی۔ 6سال کی عمر میں والدہ بھی وفات پا جاتی ہیں۔ آپ دونوں طرف سے یتیم ہو گئے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ کے دادا اور چچا نے آپ کا ہر طرح سے خیال رکھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: أَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیمًا فَآوٰی۔ ’’ کیا اللہ نے آپ کو یتیم پا کر جگہ نہیں دی۔‘‘ یتیم کی پرورش کرنا معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ خاندان ‘ رشتہ داروں اعزہ و اقارب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ یتیم کو گلے سے لگائیں، اس کی ہر ضرورت پوری کریں۔یتیم سے ہمدردی کرنے اور مسکین کو کھانا کھلانے سے دلوں کا سختی کا بھی علاج ہو جاتا ہے۔ ایک شخص اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے‘ عرض کرتا ہے: اللہ کے رسول!میرا مزاج بڑا سخت ہے‘ دل میں سختی ہے۔
میری خواہش ہے کہ میرا دل نرم ہو جائے، کسی کو پریشانی ہو تو میرا دل بھی اس کے ساتھ دھڑکے‘ اللہ کے رسولنے ارشاد فرمایا: تم کسی یتیم بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا کرو اور مسکینوں کو کھانا کھلایا کرو۔ ایک اور حدیث پاک میں آپ کا یہ ارشاد گرامی ہے: لوگو! نماز کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو،نماز کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو،نماز کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو، اپنے غلاموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو، دو کمزور طبقات کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ عورت کا حق اور یتیم بچے کا حق۔ (الجامع الصغیر) ۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ مسلمانوں میں خاصی بیداری آ چکی ہے۔ یتیموں کی کفالت کی بہت ساری تنظیمیں بن چکی ہیں جو یتیموں کو گھر والا ماحول مہیا کرتے ہیں۔ دنیا کے کسی ملک یا شہر میں چلے جائیں، آپ کو ایسے ادارے مل جائیں گے جو یتیموں کی صرف مالی کفالت ہی نہیں کرتے بلکہ ان کی تعلیم و تربیت پر بھی خوب زور دیتے ہیں۔ آج سے 4 سال قبل ریاض میں پاک پروفیشنل فورم کے صدر برادرم عمران ظہیر میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ مجاہد صاحب یتیموں کی کفالت کا ایک مرکز ہونا چاہیے۔ میں نے ان کی تجویز کی تحسین کی اور پھر ہم نے کتنی ہی میٹنگیں کیں۔ نتیجے کے طور پر پاکستان کے مشہور شہر شیخوپورہ میں آغوش مادر کے نام سے ایک ادارہ بنانے کا فیصلہ ہوا۔
پاک پروفیشنلز فورم پڑھے لکھے نوجوانوں کی تنظیم ہے جو پاکستان میں تعلیم اور معاشرے کی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔ میرے لیے سعادت کی بات ہے کہ میں اس تنظیم کا سرپرست اعلیٰ ہوں ۔ مجھے یاد ہے کہ ایک میٹنگ میں سوال ہوا کہ ہم ان یتیم بچوں کو کیا بنانا چاہتے ہیں تو انجینئر عمر علوی نے برجستہ کہا: ہم ان کو صحابہ کرام کی طرح بنانا چاہتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر بچوں پر محنت کی جائے، ان کو گھر کا ماحول مہیا کیا جائے تو ان میں صحابہ کرام والی صفات پیدا ہو سکتی ہیں۔ بلاشبہ وہ صحابہ تو نہیں بن سکتے مگر ان کے دل و دماغ میں اسلام کی محبت، اللہ کے رسول کی محبت اور صحابہ کرام کی محبت راسخ کی جا سکتی ہے۔ جن گھرانوں میں یتیم بچے پلتے ہیں وہ گھرانے بڑے ہی قابل احترام ہوتے ہیں۔ ان پر رزق اور خیر و برکت کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ کہنے کو تو یہ بڑا آسان لگتا ہے کہ جی ہم یتیم بچے یا بچی کو پال لیں گے۔ وہ خواتین بڑی عظیم ہوتی ہیں جو اپنے بچے کے ساتھ ساتھ کسی یتیم بچے کو بھی اپنا دودھ پلاتی ہیں۔ ذرا تصور کیجیے کہ دونوں بچے بھوکے ہیں، دونوں ہی رو رہے ہیں ،ماں کے لیے بڑا مشکل ہوتا ہے کہ وہ کس بچے کو دودھ پلائے؟ اپنے بچے کو یا یتیم بچے کو پہلے دودھ پلائے۔ وہ دوڑتی ہے، بھاگتی ہے ،کبھی اپنے بچے کو چپ کروا رہی ہے کبھی یتیم بچے کو خاموش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسے معلوم نہیں کہ یہ جدوجہد‘ یہ کوشش‘ یہ تڑپنا‘ بھاگنا‘ بچے کو چپ کروانا ‘اسے دودھ پلانا اللہ کے ہاں اس کی نیکیوں اور درجات میں کتنے اضافے کا سبب بن رہا ہے۔
فاطمہ کا خاوند وفات پا چکا ہے۔ وفات سے پہلے اس کے خاوند نے بڑی معمولی سی رقم ترکہ میں چھوڑی تھی۔ گھربڑا پرانا تھا۔ اس کی پرانی دیواریں چیخ چیخ کر گھر والوں سے مطالبہ کر رہی تھیں کہ اب انہیں نئے سرے سے تعمیر ہونا چاہیے مگر یہاں تو کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ احمد کی عمر اب8 سال ہے جبکہ منی کی عمر6 سال ہو چکی ہے۔ ماں کی ممتا دیکھ رہی ہے کہ بچے کچے صحن کی مٹی اچھال اچھال کر ایک دوسرے کے سروں پر ڈال رہے ہیں۔ دونوں ہنس رہے ہیں، مسکرا رہے ہیں۔ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ غریبوں کے کھیل اسی طرح کے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس کھلونوں کا تصور بھی نہیں۔ ان بچوںکو اسی طرح غربت وافلاس میں اپنا بچپن گزارنا ہے۔ فاطمہ نے آسمان کی طرف دیکھا‘ صبح سویرے سے آسمان پر بادل چھا رہے ہیں۔ اللہ رحم کرے! میرے ہمسایوںنے مجھے کتنی بار مکان کی خستہ حالی سے ڈرایا ہے کہ یہ اب تیز بارش کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یکایک بجلی چمکی‘ فاطمہ کے گھر کا صحن روشن ہو گیا۔ اس گھر میں تھا ہی کیا جو اسے نظر آتا …اور پھر تیز بارش شروع ہو گئی۔ اللہ اپنے لطف و کرم میں رکھنا‘ فاطمہ نے بے اختیار دعائیں شروع کردیں: اللہ خیر کرنا۔ بجلی کی کڑک‘ آوازیں ‘ شور ‘ دھماکہ ‘ دیوار گرنے کی آواز ‘ فاطمہ کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ چند منٹ کی خاموشی‘ بارش کا شور ‘ اس کے ساتھ ہی ہمسایہ خاتون کی آواز آئی: مبارک ہو بہن! اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ بچے بال بال بچ گئے ہیں۔ تمہارے گھر کی دیوار گری مگر اللہ کے لطف و مہربانی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
آمنہ بے اختیار بچوں کی طرف بڑھی، انہیں گلے لگا لیا۔ ان کے منہ چومنے لگی۔ کسی عورت کا سہاگ چھن جائے ۔ بچوں کا والد اس دنیا سے رخصت ہو جائے تو غم ودرد کی کیفیت اسی سے پوچھیے جس کے ساتھ یہ معاملہ گزرا ہو۔ باپ تو سائبان کی طرح ہوتا ہے۔ بارش آہستہ آہستہ رک گئی تھی۔ اندھیرا چھٹ چکا تھا‘اس کا گھر پہلے ہی غیر محفوظ تھا مگر اب تو اور غیر محفوظ ہو گیا تھا۔ ہمسایہ میں رہنے والے لوگ بڑے اچھے تھے۔ وہ آئے اور بچوں کو اپنے ہمراہ لے گئے۔ فاطمہ نے کچھ غور کیا، سوچا اور پھر اپنے آپ سے کہنے لگی : مجھے کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے مجھے محنت مزدوری بھی کرنا پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس کے قدم اپنے ہمسایوں کے گھر کی طرف اٹھ گئے۔ اس کا اپنا برقعہ پھٹ چکا تھا۔ اس نے پڑوسن سے برقعہ عاریتاً لیا اور گھر سے باہر چلی گئی۔ نکلتے وقت اس نے معمولی سے پیسے اپنی ہمسائی کی ہتھیلی پر رکھے۔ اس سے کہا : میرے بچوں کو ناشتہ ضرور کروا دینا۔ دوپہر کے کھانے کے لیے تو کچھ نہیں ۔
میں کوشش کروں گی کہ واپسی پر بچوں کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور لیتی آؤں۔ فاطمہ گھر سے نکلی ،وہ کسی کام کی تلاش میں تھی کہ اس نے بس اسٹاپ پر ایک معزز خاتون کو دیکھا جوحجاب پہنے کھڑی تھی۔ اس کی طرح وہ بھی بس کے انتظار میں تھی۔ فاطمہ نے سوچا مجھے بھی اس خاتون کے ساتھ کھڑے ہو جانا چاہیے۔ چند لمحات کے بعد وہ اس کے ساتھ کھڑی اسے سلام کہہ رہی تھی۔ معزز خاتون نے اس کے سلام کا جواب دیا۔ آمنہ کو اس کے ساتھ کھڑے ہو کر سکون ملا۔ ایسا محسوس ہوا کہ ایک بہن اس کے ساتھ کھڑی ہے۔ اتنی دیر میں بس آ گئی۔ دونوں بس میں سوار ہوئیں۔ جب کرایہ دینے کی باری آئی تو فاطمہ نے اپنے بیگ کو دیکھا تو وہ خالی تھا۔ اس کے پاس بس کا کرایہ دینے کے لیے بھی کچھ نہ تھا۔فاطمہ نے اس معزز خاتون کے کان میں آہستہ سے کہا: بہن میرے پاس کرایہ کے پیسے نہیں‘ کیا تم میرا کرایہ ادا کر دو گی؟ میری پردہ پوشی کرو اللہ تمہاری پردہ پوشی کرے گا۔ معزز خاتون نے جواب دیا: فکر نہ کرو تمہارا کرایہ میں بڑی خوشی سے ادا کر دیتی ہوں۔
معزز خاتون نے پوچھا: بہن! تمہاری رہائش کہاں ہے؟ جواب ملا کہ میں اس گھر میں رہتی ہوں جو اب کھنڈر بن چکا ہے۔ اب وہ رہنے کے قابل نہیں۔ اس کی چھت کسی بھی وقت گر سکتی ہے۔ گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہیں۔ میں اپنے یتیم بچوں کو اللہ کے سہارے پر چھوڑ آئی ہوں۔ میں کسی کام کی تلاش میں ہوں‘ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ معزز خاتون نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا : میرا نام آمنہ ہے۔ میرا تعلق یتیموں اور بیواؤں کی مدد کرنے والے ادارے سے ہے۔ فکر نہ کرو اگر اللہ نے چاہا تو تمہارے خاندان کی کفالت ہم سنبھال لیں گے۔ تھوڑی سی کاغذی کاروائی کی ضرورت ہو گی۔ میں کفالۃ الایتام کی سپر وائزر ہوں۔ اگر اللہ کو منظور ہوا تو سارے کام ٹھیک ہو جائیں گے۔
قارئین کرام! یہ واقعہ مصر کا ہے۔ اگلے روز وہاں کی سلفی تنظیم انصار السنۃ المحمدیہ کے شعبہ خواتین میںآمنہ نے بڑے اچھے انداز میں فاطمہ کاستقبال کیا۔ اس سے بعض کاغذوں پر دستخط کروائے۔فاطمہ کی مشکلات الحمدللہ بتدریج دور ہوتی چلی گئیں۔ گھر بھی بن گیا ،اس کے بچوں کی کفالت کا بھی انتظام ہو گیا۔ اہل خیر نے ساری ذمہ داریاں قبول کر لیں۔ منی اور احمد نے تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی۔ وقت گزرتے دیر نہیں لگی۔ منی اب جامعہ خرطوم میں لیکچرار ہے۔ وہاں علم کی روشنی پھیلا رہی ہے۔ احمد حافظ قرآن اور عالم دین ہے۔ قارئین کرام ! آمنہ کی داستان ہمارے معاشرے کی سیکڑوں داستانوں میں ایک ہے۔ ہر دور میں مخیر حضرات یتیم بچوں کی کفالت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنا ،اس کے ساتھ مسکرا کر بات کرنا بڑی نیکی ہے۔